تو جو مل جائے
تو جو مل جائے از انا الیاس قسط نمبر21
وہ جو وہيبہ کو يہ خوشخبری سنانے والا تھا کا اسے دو دن کی چھٹی مل گئ ہے اور وہ اسکے پاس لاہور آرہا تھا۔ تاکہ سب سے مل کر اور ايک دن رہ کر وہيبہ کواپنے ساتھ واپس لے آۓ۔ چار دن ہوگۓ تھے اسے ديکھے ہوۓ۔۔اپنے گرد اسکی موجودگی کو محسوس کئيۓ ہوۓ۔ عجيب بے کيف دن ہوگۓ تھے اسکے بغير۔ وہ مزيد اس سے دور نہيں رہ سکتا تھا۔ لہذا جيسے ہی چھٹی کا کنفرم ہوا وہ اسے فون کرنے لگا۔ مگر وہ فون اٹھا ہی نہيں رہی تھی۔ رات بھی انکی کسی بات پر بحث ہوئ جس کے بعد اس نے ناراضگی سے فون بند کرديا۔ خبيب يہی سمجھا کہ وہ ابھی بھی ناراض ہے لہذا اس نے ميسجز کئيۓ جب کچھ دير تک انکا بھی جواب نہيں آيا تب خبيب کو تشويش شروع ہوئ۔ اور پھر اچانک دل گھبرانے لگا تو اس نے گھر فون کر ديا وہاں سے پتہ چلا کہ وہ کہيں باہر گئ ہوئ ہے۔ نفيسہ نے يہ نہيں بتايا کہ اکيلی سب کو لے کر نکلی ہے۔ مگر خبيب کو تسلی نہيں ہو رہی تھی بے چينی بڑھتی جا رہی تھی۔ اور کچھ دير بعد نيہا کی آنے والی کال نے جو خبر سنائ اسکے بعد خبيب کو اندازہ ہوا کہ کيسے لوگوں کے قدموں تلے سے زمين کھسکتی ہے۔ "بھائ۔۔۔بھائ" نيہا کی کال آتے ديکھ کر اس نے فورا فون اٹھايا مگر آگے سے اسکی روتی آواز سن کر پريشانی سوا ہوئ۔ "کيا ہوا ہے نيہا" دل بيٹھتا جا رہا تھا۔ "بھائ وہ ہارون۔۔۔وہيبہ کو لے گيا ہے" اس نے روتے روتے پوری بات بتائ۔ خبيب نے بمشکل يہ خبر برداشت کی۔ اسی لمحے اس نے نيہا کا فون بند کرکے حبيب صاحب کو فون کيا تھ معلوم ہوا انہيں بھی يہ اطلاع مل چکی ہے۔ وہ فوراّ ائير پورٹ کی جانب بھاگا۔ پہلی فلائٹ ملتے ہی وہ فوراّّ لاہور پہنچا۔ ابھی اس واقعے کو بيتے تين گھنٹے ہی گزرے تھے مگر ايسا معلوم ہو رہا تھا کہ انکے گھر پر بہت بڑی قيامت گزر گئ ہو۔ "ميرا بچہ آگيا۔۔۔خبيب کہيں سے ڈھونڈ لاؤ ميری بيٹی کو۔۔۔ميں مر جاؤں گی۔۔وہ خبيث کيسے پہنچ گيا" نفيسہ خديجہ اور رقيہ کا رو رو کر برا حال تھا۔ خبيب انہيں تسلی دے کر کاشف کو لے کر وہاں سے نکلا اور ہارون کے گھر پہنچا۔ "ہم نے پتہ کيا ہے اسکے ماں باپ کچھ نہيں جانتے" کاشف نے اسے سمجھانا چاہا۔ "وہ تمہيں کبھی بھی نہيں بتائيں گے۔۔۔۔" خبيب نے اسے گہری نظروں سے ديکھتے ہوۓ کہا۔ "پوليس والے گونگوں کو بھی بولنے پر مجبور کر ديتے ہيں ديکھتا ہوں کيسے اسے خبيث کے کرتوتوں سے ناواقف ہيں۔" اسی لمحے اسکے موبائل پر کال آئ۔
وہ جو اسے گھسيٹتا ہوا اپنے فليٹ ميں لے آيا تھا جو فليٹ کم اور فحاشی کا اڈا زيادہ تھا۔ وہيبہ کا پورا وجود اس وقت دعا بنا ہوا تھا۔ "مجھے مجھے جيل بھجوايا تھا نہ تيرے اس کزن نے اب ميں اسے بتاؤں گا کہ مجھ سے ٹکر لينے کا انجام کيا ہے" اندر لا کر وہيبہ کو صوفے پر پٹختا ہوا وہ بھوکے شير کی طرح دھاڑا۔ "اب تو ہميشہ يہيں رہے گی۔۔ہماری دھول کو بھی نہيں پا سکے گا۔وہ (گالی)۔۔۔۔۔" وہيبہ نے تکليف سے آنکھيں ميچ ليں۔۔۔اسکی محبت کو يہ گھٹيا درندہ کن الفاظ ميں پکار رہا تھا وہيبہ کے لئۓ سننا نا گزير ہو گيا۔ "ميں اسکی بيوی ہوں اب۔۔۔پليز مجھے چھوڑ دو۔۔۔۔ميں امانت ہوں کسی کی" وہيبہ نے منت کرتے ہوۓ ايک آخری کوشش کی۔ کچھ لمحوں کے لئۓ تو ہارون يہ سچ سن کر ساکت ہو گيا۔ "کيا۔۔۔کيا کہا ہے تم نے" اسے لگا اسکی سماعتوں نے غلط سنا ہے۔ "ميں خبيب کی بيوی ہوں" اسے لگا شايد وہ درندہ يہ سن کر اسے چھوڑ دے گا۔ مگر وہ يہ بھول گئ تھی درندوں ميں احساس اور انسانيت نہيں ہوتی اسی لئيۓ انہيں درندے کہتے ہيں۔ "اوہ ہ ہ ہ۔۔۔۔۔ہاہاہا۔۔۔بيوی۔۔واہ۔۔مجھے ہميشہ شک گزرتا تھا کہ اسکا تيرے ساتھ کوئ چکر ہے۔۔۔۔ہر مرتبہ وہی (گالی) تھا نہ جو تجھے ميرے شکنجے سے بچا ليتا تھا" وہ پھنکارا۔ اپنی لال انگارہ آنکھيں وہيبہ کے چہرے پر گاڑھيں۔ "اب تو اور بھی مزہ آۓ گا اسکی بيوی ی ی ی ۔۔۔۔۔۔سے کھيلنے کا۔۔۔کتنا درد اور تکليف سے تڑپے گا" اس کے گھٹيا انداز پر وہيبہ کو لگا اسکی سانسيں اب بند ہو جائيں گی۔ اس نے تيزی سے دماغ لڑانا شروع کيا کہ کيسے اس گھٹيا بندے سے خود کو بچاۓ۔ "ميں برتی ہوئ ہوں۔۔۔تمہارا معيار اتنا گرا ہوا ہے کہ ايک برتی ہوئ عورت کو اپنا نشانہ بنا رہے ہو" وہيبہ نے اسے اموشنل کرنا چاہا۔ مگر وہ تو ايک گھاگھ انسان تھا۔۔۔ وہيبہ کی بات پر قہقہہ لگايا۔ "دشمنی کی آگ ميں کوئ يہ نہيں ديکھتا کہ عورت برتی ہوئ ہے کہ ان چھوئ" وہيبہ کے پاس آکر اسکے بالوں کو اپنے ہاتھوں کے سخت شکنجے ميں پکڑتا ہوا وہ جس قدر ہوس سے اسکا ايک ايک نقش ديکھ رہا تھا وہيبہ کی سانس رک گئ۔ "مگر فکر نہ کرو ابھی ہاتھ نہيں لگاؤں گا۔۔۔۔جب تک تمہارے شوہر کو نہ بتا دوں کہ اسکے دل کا سکون اور چين اب ميری زندگی کو رنگيں کرے گی" وہ منہ بگاڑ کر بولا۔ وہيبہ کا دل کيا کہ کاش اسکے ہاتھ ميں تيزاب ہوتا اور وہ اسکے منہ پر پھينک ديتی۔ اسی لمحے ہارون کے موبائل پر کوئ فون آيا "ہيلو" ٹھيک ہے ميں آتا ہو" نجانے دوسری جانب کيا کہا گيا کہ وہ پريشان نظر آيا۔ "ميں ابھی ايک ضروری کام سے جا رہا ہوں دو گھنٹے بعد تم سے يہيں ملاقات ہوگی۔۔۔تب تمہاے منہ سے نکلے ہوۓ ہر اس لفظ کا بھی بدلہ لينا جو تم نے ہماری منگنی کے دوران مجھے کہا تھا۔۔اور پھر ميرے اور تمہارے پيار کی پياری سے تصويريں تمہارے شوہر کو بھيجوں گا" وہ گھٹيا پن کی ہر حد کراس کر چکا تھا"بات سنو کسی خوش فہمی ميں مت رہنا ميرا شوہر کچھ ہی لمحوں ميں تمہيں اس قابل بھی نہيں چھوڑے گا کہ تم اپنی ان گندی نظروں سے مجھے ديکھ بھی سکو۔۔۔۔تم اسے ابھی جانتے نہيں" وہيبہ اس سے زيادہ خود کو روک نہيں پائ ايک ايک لفظ چبا کر کہتی وہ اسے حيران کرگئ۔ "بھئ ايسے ٹيلنٹڈ آفيسر کی بيوی ہی اتنی جی دار ہو سکتی ہے جو ايسی سچوئشن ميں بھی مجھے دھمکی دے رہی ہو۔۔آئم امپريسڈ" اس نے تالی بجا کر گويا اس کا مذاق اڑايا۔ "ميں بھی ديکھتا ہوں دو گھنٹے بعد تمہيں يہاں کون بچانے آتا ہے۔۔۔" کہتا ہوا تيزی سے فليٹ کو لاک لگا کر چلا گيا۔
دو کی جگہ تين گھنٹے بعد وہ فليٹ ميں واپس آيا۔ "ہاں بھئ ابھی تک تو تمہارا وہ جی دار مياں پہنچا نہيں۔۔۔۔۔ہاہاہا بس دعوے ہی تھے تمہارے" وہ اسے چڑاتے ہوۓ بولا۔ جس نے اپنے پيچھے اسی کی ايک شراب کی بوتل کچن سے نکال کر توڑ کر چھپائ ہوئ تھی۔ وہ صوفے پر اس انداز ميں بيٹھی تھی کہ اسکے پيچھے کشن کے نيچے وہ بوتل دھری تھی۔ "نمبر دو اپنے جان نثار شوہر کا" اسکے سامنے صوفے پر بيٹھتا ہوا وہ بولا۔ وہيبہ نے جلدی سے نمبر بتايا۔ خبيب جو ابھی گاڑی ميں اسکے گھر کے باہر ہی تھا۔ فون کی بيل بجنے پر تيزی سے کال اٹھائ۔ "ہيلو" "اوہ ہيلو مسٹر شوہر۔۔۔۔کيسے ہو۔۔پہچان تو گۓ ہوگے" ہارون کی آواز کو وہ کيسے نہ پہچانتا اس وقت وہی تو ايک شخص تھا جو دنيا ميں اسے ياد تھا۔ "وہيبہ کہاں ہے" وہ غرايا "ہاہاہاہا۔۔۔۔بڑا درد ہے آواز ميں۔۔۔۔لو اٹ" گھٹيا پن سے وہ قہقہہ مار کر بولا۔ "کيا چاہتے ہو۔۔۔۔پيسہ۔۔کوئ معافی نامہ" خبيب اس وقت سب کرنے کو تيار تھا بس وہيبہ مل جاتی۔ "ارے بہت سستی چيزيں گنوائيں ہيں" وہ پھر سے وہيبہ کو ديکھتا مکاری سے ہنسا جو اس وقت پرسکون نظر آ رہی تھی۔ وہ حيرت کا شکار بھی ہوا۔ "تو پھر کيا چاہتے ہو" وہ غصے سے چلا کر بولا۔۔کاشف نے اسکے کندھے پر ہاتھ رکھ کر گويا اسے تسلی دی۔ "تمہاری بيوی" خبيب کو لگا اسکا رواں رواں آگ ميں جل گيا ہے۔۔۔ "اگر تم نے اسے ہاتھ بھی لگايا تو ياد رکھنا ميں تمہيں چير پھاڑ کر رکھ دوں گا۔" غصے سے کہتا وہ گاڑی کا دروازہ کھول کر تيزی سے باہر نکلا اور دھماکے سے دروازہ بند کرتا اسکے گھر کے دروازے کی جانب بڑھا۔ کاشف کو ان کا چوکیدار جانتا تھا لہذا اسے نے جلدی سے دروازہ کھول ديا۔ فون خبيب کے کان پر لگا ہوا تھا۔ "ميں نہ صرف اسے ہاتھ لگاؤں گا بلکہ پوری طرح وصولی کروں گا اس ايک ايک تکليف کی جو تمہارے کہنے پر مجھے جيل ميں ملی۔" کہتے ساتھ ہی اس نے فون بند کر ديا۔ خبيب نے تيزی سے ايک نمبر پر اسکا نمبر سينڈ کرکے پھر فون کيا۔ "مجھے کچھ ہی سيکنڈز ميں اس نمبر کی لوکيشن چاہئۓ جو تمہيں ابھی بھيجا ہے سيکنڈز منٹ کی سوئ کراس نہ کرے" اسکے چہرے پر پتھريلے تاثرات تھے۔ وہ پہلے بھی يہ گھر ديکھ چکا تھا لہذا سيدھا لاؤنج کی جانب بڑھا ہارون کی ماں وہيں موجود تھی۔ "پوليس والے يہ نہيں ديکھتے کہ مجرم سے تعلق رکھنے والا کس عمر کا ہے۔۔۔مجھے ايک سيکنڈ کے اندر اسکے ٹھکانے کا نہيں بتايا جہاں وہ ميری بيوی کو لے کر گيا ہے تو ميں پوليس والا بننے ميں ايک سيکنڈ کی دير نہيں لگاؤں گا۔" اسکی ماں کو اپنی غصيلی آنکھوں سے ديکھتا خبيب سرد لہجے ميں بولا۔ "ديکھو مجھے واقعی۔۔۔" اس سے پہلے کہ اسکے منہ سے انکار نکلتا خبيب کا بھاری ہاتھ اسکے منہ پر پڑا۔ کاشف بھی اپنی جگہ ششدر رہ گيا۔ "بتاتی ہوں" ايک تھپڑ نے ہی اسکے سارے کس بل نکال دئيۓ۔ اسی لمحے خبيب کے فون پر کال آئ اور اسکی ماں نے جو جگہ بتائ اور جہاں سے وہ فون کی لوکيشن خبيب کے بندے نے ٹريس کی وہ ايک ہی جگہ تھی۔ خبيب الٹے قدموں واپس گاڑی کی جانب گيا۔
فون بند کرکے مکاری سے ہنستا وہ وہيبہ کی جانب ديکھنے لگا۔ وہيبہ نے کوئ تاثر نہيں ديا اور نہ اسکے ديکھنے پر کسی اشتعال کا مظاہرہ کيا۔ ہارون اٹھ کر فريج کی جانب گيا پھر وہاں سے اپنا پسنديدہ مشروب گلاس ميں انڈيل کر پيتا وہيبہ کو جن نظروں سے دیکھ رہا تھا وہيبہ کا دل کيا اسکی آنکھيں نوچ لے۔ "پتہ ہے مجھے منگنی والے دن اندازہ ہو گيا تھا کہ تمہارا يہ کزن تمہارے معاملے ميں کچھ گڑ بڑ کرے گا ۔۔۔اسکی نظريں جيسے تم پر اٹھيں تھيں۔۔۔وہ ميں بھول نہيں سکتا۔۔۔۔اور ديکھ لو۔۔۔تمہيں مجھ سے الگ کرکے اڑا کر لے گيا۔۔۔مگر آج وہ اپنی قسمت پر روۓ گا۔۔کہ کاش مجھ سے پنگا نہ ليتا۔۔۔۔"وہيبہ نے اسکی کسی بات کا جواب نہيں ديا "پيو گی؟"اس نے وہيبہ کی خاموشی پر جان بوجھ کر اسے اکسا کر کہا۔ "حرام چيزيں تمہيں ہی مبارک ہوں" آہستہ سے کہتی وہ چہرہ موڑ گئ۔ ہارون نے وحشيانہ انداز مين پھر سے اسکے بال پکڑے۔ مگر اس مرتبہ وہ نہيں جانتا تھا کہ وہ واقعی ايک پوليس والے کی بيوی پر غلط ہاتھ ڈال بيٹھا ہے۔ وہيبہ کا ايک ہاتھ جو اسے نزديک آتا دیکھ کر پيچھے کھسک چکا تھا۔ تکليف کی شدت کے باوجود اس نے اپنے حواس برقرار رکھ کر تيزی سے شراب کی ٹوٹی بوتل والا ہاتھ ہارون کے منہ پر پے درپے مارا۔ وہ تکليف سے بلبلا کر رہ گيا۔ پھر اتنی ہی پھرتی سے اس نے ٹيبل پر پڑا اس کا موبائل اٹھايا۔ اپنی زيرک نگاہ سے وہ يہ ديکھ چکی تھی کہ اسکے موبائل پر کوئ پاس ورڈ اور پيٹرن نہيں ہے۔ وہ بھاگتی ہوئ اس سٹور نما کمرے ميں پہنچی جسے وہ ہارون کی غير موجودگی ميں پہلے ہی دیکھ چکی تھی اور وہاں پر موجود لوہے کی الماری کو ہلا جلا کر وہ دروازے کے قريب لا کر پلين بنا چکی تھی کہ اسے خود کو بچانے کے لئيۓ کيا کرنا ہے۔ اس نے جلدی سے دروازہ بند کرکے اسے لاک لگاتے وہ الماری اس دروازے کے آگۓ گرائ ايک زوردار دھماکے کی آواز آئ اور اس بھاری بھرکم الماری نے دروازہ کھلنے کا راستہ بند کر ديا۔ وہيبہ نے تيزی سے موبائل کھولا۔ ريسينٹ کال لسٹ چيک کی جہاں خبيب کا نمبر جگمگا رہا تھا۔ دھندلائ آنکھوں سے اس نے جلدی سے فون ملايا۔ فون اٹھاتے ہی خبيب نے ايک گالی نکالی وہ يہی سمجھا کہ دوسری جانب ہارون ہے۔ وہيبہ نے خوف کی شدت ميں بھی مسکرا کر اپنے محبوب کی يہ گالی سنی۔۔۔جس ميں وہيبہ کے لئيۓ شدید محبت چھپی تھی۔ "ميں ہوں خبيب" وہيبہ کی آواز سن کر کچھ لمحے دوسری جانب سناٹا چھا گيا۔ "ٹھيک ہو ميری جان ميں بس آرہا ہوں" خبيب کی آواز ميں گھلی شدتيں اس نے پوری طرح محسوس کيں۔ اور اپنی کارگزاری بتائ۔ خبيب کو اس پر فخر ہوا۔ "وہ باہر سے پوری کوشش کر رہا ہے دروازہ کھولنے کی" وہيبہ نے ہارون کی آوازيں سنی جو لاک کھول کر اب اس الماری کو ہٹانے کی کوشش ميں تھا مگر کامياب نہيں ہو پا رہا تھا لہذا گاليوں کی بھرمار جاری تھی۔ "ہم بس پہنچ گۓ ہيں۔۔اس کمينے کو موقع نہيں ملے گا آپ تک آنے کا ڈونٹ وری" خبيب نے اسے تسلی دلائ۔۔جو آج گاڑی کو اڑاتا ہوا وہاں پہنچا تھا